Sunday 7 April 2013

Humor at its Best


مشتاق احمد یوسفی کی کتاب 'چراغ تلے' سے کچھ اقتباسات

"ترقی یافتہ ممالک میں مارچ کا مہینہ بے حد بہار آفریں ہوتا ہے۔یہ وہ مہینہ ہے جس  میں سبزہ اوس کھا کھا کر ہرا ہوتا ہے اور ایک طرف دامنِ صحرا موتیوں  سے بھر جاتا ہے تو دوسری طرف "موجہ گُل سے چراغاں ہے گزر گاہِ خیال"
اس تمہید دل پذیر سے میرا یہ مطلب نہیں کہ اس کے بر عکس پسماندہ ممالک میں اس مست مہینے میں پت جھڑ ہوتا ہے اور "بجائے گل چمنوں میں کمر کمر ہے کھاد" توجہ صرف اس امر کی چرف دلانا چاہتا ہوں کہ بر صغیر میں یہ  فصلِ گل آبادی کے سب سے معصوم اور بے گناہ طبقے  کے لئے ایک نئے ذہنی کرب کا پیغام لاتی ہے' جس میں چار سال سے لے کر چوبیس سال کی عمر تک کے سبھی مبتلا نظر آتے ہیں۔ ہمارے ہاں یہ سالانہ امتحانوں کا موسم ہوتا ہے۔ خدا جا نے محکمہ تعلیم  نے اس زمانے میں امتحانات رکھنے میں کون سی ایسی مصلحت دیکھی ورنہ عاجز کی رائے میں اس ذہنی عذاب کے لئے  جنوری اور جون کے مہینے نہایت مناسب رہیں  گے۔ یہ اس لئے عرض کر رہا ہوں کہ  کلاسیکی ٹریجڈی کے لئے موسم انتہائی ضروری تصور کیا گیا ہے۔"

-----------------------------------------

"۔۔۔۔۔۔۔وہ نفسیات کے کسی  فارمولے کی گمراہ کن روشنی میں اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ مل کر بچھڑنے میں جو دکھ ہوتا ہے ' وہ ذرا دیر مل بیٹھنے کی وقتی خوشی سے سات گنا شدید اور دیر پا ہوتا ہے اور وہ بیٹھے بٹھائے اپنے دکھوں میں اضافہ کرنے کے حق میں نہیں تھے۔ سنا یہ ہے کہ وہ اپنے بعض دوستوں کو  محض اس بنا پر محبوب رکھتے ہیں کہ وہ ان سے پہلے مر چکے تھے اور از بسکہ ان سے ملاقات کا امکان  مستقبل قریب میں نظر نہیں آتا تھا لہذا ان کی یادوں کو حنوط کر کے انہوں نے اپنے دل کے ممی خانے میں بڑے قرینے سے سجا رکھا تھا۔"

----------------------------------------

(اس مضمون میں مشتاق احمد یوسفی نے کافی کے لئے اپنی نا پسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔)
ایک صاحب نے مجھے لاجواب کرنے کی خاطر یہ دلیل پیش کی کہ  امریکہ میں تو کافی اس قدر عام ہے کہ جیل میں بھی پلائی جاتی ہے۔ عرض کیا کہ جب قیدی خود اس پر احتجاج نہیں کرتے تو ہمیں کیا پڑی کہ وکالت کریں۔ پاکستانی جیلوں میں بھی قیدیوں کے ساتھ یہ سلوک روا رکھا جائے تو انسدادِ جرائم میں کافی مدد ملے گی۔ پھر انہوں نے بتلایا کہ وہاں لاعلاج مریضوں کو بشاش رکھنے کی غرض سے کافی پلائی جاتی ہے۔ کافی کے سریع التاثیر ہونے میں کیا کلام ہے۔ میرا خیال ہے کہ دم نزع  حلق میں پانی چوانے کے بجائے کافی کے دو چار قطرے  ٹپکا دیئے جائیں تو مریض کا دم آسانی سے نکل جائے۔

--------------------------------------

ایمان کی بات یہ ہے کہ جھو ٹے الزام  کو سمجھدار آدمی نہایت اعتماد سے ہنس کر ٹال دیتا ہے مگر سچے الزام سے تن بدن میں آگ لگ جاتی ہے۔

-------------------------------------

سنا ہے کہ شا ئستہ آدمی کی یہ پہچان  ہے کہ اگر آپ اس سے کہیں کہ مجھے فلاں بیماری ہے تو وہ کوئی آزمودہ  دوا  نہ بتائے۔ شائستگی کا یہ سخت معیار صحیح تسلیم کر لیا جائے تو ہمارے ملک میں سوائے ڈاکٹروں کے کوئی اللہ کا بندہ  شائستہ کہلانے کا مستحق نہ نکلے۔

-------------------------------------

میرا یہ دعوی نہیں کہ ہنسنے سے سفید بال کالے ہو جاتے ہیں' اتنا ضرور ہے کہ پھر وہ اتنے بُرے معلوم نہیں ہوتے۔ 

2 comments:

  1. have read this book ... one of the best books I've ever read ... loved it

    ReplyDelete
  2. From Khakam Badhan "Humera woh ideal aurat thi, jis kay khwab har sehat mand admi dekhta hai ... yani shareef khandaan, khubsurat aur awara!"

    ReplyDelete